معاشی مواقع کی تنگی کی بنا پر لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، سپریم کورٹ کے طرف سے ریمارکس، یہاں تک کہ دغدار پیسوں کی حفاظت کے لئے سسٹم میں مختلف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، جو انتہائی اہم ہیں۔ اس معاملے میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ اور فیئر معاشرہ کی بنیاد رکھی جائے۔
پاکستان کے چیف جسٹس نے نیب ترامیم کیس کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوں کیلئے مختص کر دیا گیا ہے، جس کی بنا پر لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ان کے مطابق، سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کی گئی، اور جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس درخواست کو سنا۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اظہار کیا کہ شکایت کنندہ چاہتا ہے کہ نیب ترامیم کے ذریعے پیسے کا غبن روکا جائے، اور کرپشن کے مقدمات کا عوام کے حقوق سے متعلق ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پارلیمنٹ کی اختیارات کو بھی سوال کیا کہ کیا عدالت قانون بنانے کی اجازت دے سکتی ہیں؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرٹیکل 9 کے تحت عدالت ایسے قوانین کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں، اور اس کا عوامی حقوق سے متعلق دلیل ہے۔ انور مجید نے ایمنسٹی اسکیم کی مثال دی کہ کالا دھن کو سفید کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ کاروباری افراد کو فوائد منظور ہیں لیکن عوامی حقوق کے ساتھ کوئی رشوت دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ اس ستمبر تک کی سماعت کے بعد کہا کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ عوام کا نیب ترامیم پر اعتراض ہوتا ہے تو انتخابات میں نئے لوگوں کو منتخب کرنے کی سوچتے ہیں، اور کہ انتخابات جلد ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد، سپریم کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث کو تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا، اور اٹارنی جنرل سے بھی دلائل کی درخواست کی۔ عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔