مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ صدر کو کونسی طاقتیں سپورٹ کررہی ہیں، جو سیاسی عدم استحکام کو فروغ دینا چاہتی ہیں؟ عارف علوی ایک مختار پارٹی کی نمائندگی کرنے والے جانبدار صدر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن کو کسی حکم یا تجویز کی تسلیم کرنے کا کوئی پابندی نہیں ہوتی، یہ خود ایک مستقل ادارہ ہوتا ہے۔ صدر نے ایک ایسی عدالت کی طرف رجوع کی تجویز دی ہے جو عدالت عمران خان اور پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہی ہے، اور اس معاملے میں تو پھینکنے کی باتیں ہو رہی ہیں، جبکہ عدلیہ اور صدر کی طرف سے اس پر ردعمل کیا گیا ہے۔
فضل الرحمان نے شدید اظہار کیا کہ صدر عارف علوی نے ملکی نظام میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے، اور اس تنازعے کا نتیجہ ہے کہ انتخابی معاملات متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق، کون سی قوتیں صدر کو سپورٹ کر رہی ہیں، جو ملک میں سیاسی عدم استحکام کو فروغ دینا چاہتی ہیں؟ انہوں نے بیان کیا کہ سندھ میں ابھی تک کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں ہوا، اور سندھ میں کچھ جماعتوں کے ساتھ رابطے تو ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
محمد میاں سومرو کی ملاقات کے بعد بھی کوئی مثبت توازن نہیں حاصل ہوا، جے یو آئی کے سربراہ نے اس روش کو منظور نہیں کیا کہ پاکستان کی سیاست میں یہ روش ٹھیک نہیں ہے، یہ اداروں کو الجھانے کی ایک کوشش تو ہے، لیکن اس کی کامیابی کوئی توقع نہیں کرتا۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر کی اوقات کا پتہ ہے، اور وہ خود بونس پر چل رہے ہیں، تو مکمل مدت کے مختتم ہونے کے بعد، عارف علوی نے اپنی کاموں میں مصروف رہیں گے۔
اختتاماً، مولانا فضل الرحمان کے مطابق، الیکشن کی تاریخ کا اختیار صدر کی ذمہ داری نہیں ہوتا، اور اگر صدر کا اختیار بھی ہوتا ہے، تو اس کا استعمال بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ صدر مملکت کی ایک پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور انہیں جانبدار صدر کے طور پر مانا جاتا ہے۔