پیپلز پارٹی، پرویز مشرف، اور ن لیگ کی سیاستوں کی بنا پر، عوام کو غیر استعمال شدہ بجلی کے 2 ہزار ارب روپے ادا کرنے کے لئے مجبور کر دیا گیا ہے۔ سابقہ حکومتوں کی پاور پالیسیوں کی وجہ سے موجودہ بجلی کی کمی کی شدید بنیادوں پر قائم ہوئی ہے۔ 90 کی دہائی، 2002 اور 2015 کی پاور پالیسیوں کے تحت، بجلی کارخانوں سے بجلی خریدنے کے باوجود ادائیگی کی معاہدے کیے گئے جو کہ عوام کے لئے معترف کرنے کے لئے نہیں تھے۔ اس نتیجے میں، توانائی سیکٹر نے ملکی خزانے اور عوام پر بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔
پیپلز پارٹی، پرویز مشرف، اور ن لیگ کے حکومتی دوروں میں کئی بجلی کے معاہدے کی اہم تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ان معاہدوں کی بنا پر بجلی کی قیمتوں میں 60 فیصد کیپسٹی پیمنٹ کی اجازت دی گئی ہے، جس کی وجہ سے عوام کو بجلی کے ایک یونٹ کے لئے زیادہ پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ یعنی اگر عوام کو بجلی کا ایک یونٹ 30 روپے کا ہوتا ہے تو انہیں اس کے 18 روپے صرف کیپسٹی پیمنٹ کے طور پر دینے ہوتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں، عوام ہر سال 2 ہزار 10 ارب روپے کی بجلی کے ادائیگی کرتے ہیں، جو کہ انہوں نے استعمال نہیں کی ہوتی، اور نہ ہی اس کی پیدوار کی گئی ہوتی ہے۔ یہ معنی ہے کہ اگر بجلی کو پانی اور شمسی ذرائع سے بھی سستی طریقے سے پیدا کرنا شروع کیا جائے تو بھی عوام کو کیپسٹی پیمنٹ کے 2 ہزار ارب روپے کی اضافی ادائیگی کرنی ہوگی۔