الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے صدر کے خط کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اس پر سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا رائے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی آئینی حیثیت کو ملحوظ خاصیت نہیں دی، اور اس کا اختیار کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا پابند ہو، ان کے پاس نہیں ہے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ صدر مملکت نے اپنے خط میں انتخابات کی تاریخ تعین کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے، اور وہ وزارت قانون کو اپنے خط کے پابند ہیں۔
انہوں نے بھی بتایا کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا عمل شروع کیا ہے، جو کہ آئین کی تقاضا ہے۔ ان کے مطابق، مئی 2022 میں ن لیگ نے الیکشن میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور اس میں مولانا فضل الرحمان اور زرداری صاحب کی بڑی کردار تھا۔
رانا ثنا اللہ نے مذید بیان دیتے ہوئے کہا کہ مردم شماری کی منظوری والے دنوں میں کی گئی میٹنگ میں الیکشن میں تاخیر کا امکان ظاہر ہوا، اور وہ بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے اتحادیوں کو معلوم تھا کہ ان کی منظوری سے الیکشن میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
وہ اضافی طور پر بیان کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اب الیکشن کا مؤقف سوٹ کرنے کا حق ہے، اور ان کا جواب دینے کا حق بھی حاصل ہے۔ ان کے مطابق، جب مردم شماری کی منظوری ملی تو بلاول بھٹو کو بھی اس کا علم تھا، اور ان کو یہ معلوم تھا کہ الیکشن کروانے میں وقت لگ سکتا ہے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ زرداری کے بیان کو سیاسی موقف کے طور پر دیکھنا چاہئے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی استعفی اور اسمبلی کے ختم کرنے کا اعلان سیاسی تبادلے کا حصہ تھا۔
ان کے مطابق، مردم شماری کی منظوری کے بعد، پیپلز پارٹی کو اس کا مؤقف سوٹ کرتا ہے کہ الیکشن کب کروائیں، اور بلاول بھٹو کا بیان سیاسی مفہوم ہونا چاہئے۔