وزیراعظم شہبازشریف کے اس ردعمل نے واضح طور پر اظہار کیا ہے کہ وہ صدر کے لئے جلدی کیوں ہے؟
وزیراعظم نے اس ضمن میں میڈیا کے ساتھ غیررسمی گفتگو کیا اور انہوں نے بتایا کہ صدر کا فیصلہ جلد ہی آ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تنبیہ دی کہ خط لکھنے سے پہلے صدر کو اس خط کو پڑھ لینا چاہئے تھا۔
وزیراعظم کے مطابق، جب تک نگران وزیراعظم کا نام فائنل نہ ہو جائے، وہ وزیراعظم کے طور پر عہد کر رہے ہیں اور تین دن کی مدت میں فیصلہ نہیں ہوا تو پارلیمانی کمیٹی کو عمل کرنے کا حق ہوگا۔ اسی طرح، اگر پارلیمانی کمیٹی بھی فیصلہ نہ کرے تو الیکشن کمیشن کو نگران وزیراعظم کے نام کا فیصلہ کرنے کا کام دینا پڑے گا۔
وزیراعظم نے اسی موقع پر اتحادی حکومت کے ساتھ مشاورت کرنے کا اعلان کیا اور تمام اتحادیوں کو مشاورت کے لئے بلایا ہے۔
شہبازشریف نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سخت تنقید کیا جب وہ انسان کی بات کرنے کی تاثرپذیری کے حد تک جا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انسان وہ کام کرے جس کے نتائج کو وہ برداشت کرسکے۔ ان کا موقف ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے دوست ممالک سے تعلقات کو خراب کردیا ہے اور گذشتہ حکومت کے دوران تعلقات کی حالت بھی ناقابل قبول تھی، لیکن اب تعلقات کی صورتحال میں بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔ انہوں نے سائفر کے معاملے میں بھی تشہیر کی ہے کہ اب حقیقت سامنے آگئی ہے اور ملک کی ترقی کا ویژن آئی ایف سی کا ہے۔
شہبازشریف نے حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اتحادی حکومت نے مل کر ملک کو مشکلات کا سامنا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کا یقین ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے نوازشریف کی واپسی کا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ انشاءاللہ واپس آکر قانون کاسامنا کریں گے۔